اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مزید مقدمات میں اپنے احکامات میں 31 مئی تک توسیع کردی۔
یہ پیش رفت پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کے دوران سامنے آئی، جس میں عمران خان کے خلاف دائر تمام مقدمات کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان کے خلاف 100 سے زائد مقدمات درج ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل پاکستان اور سرکاری وکیل نے عدالت سے پی ٹی آئی سربراہ کے خلاف مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے وقت مانگا۔
عدالت نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت 31 مئی تک ملتوی کردی۔
12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے مختلف بینچوں نے عمران خان کو مکمل ریلیف دیتے ہوئے نہ صرف حکام کو ان کی گرفتاری سے روک دیا بلکہ توشہ خانہ کیس میں ان کا ٹرائل جون کے دوسرے ہفتے تک روک دیا۔
عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف لاہور میں درج دہشت گردی کے تین مقدمات اور زیلے شاہ قتل کیس میں حفاظتی ضمانت بھی منظور کرلی۔
اسی روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک الگ بینچ نے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی دو ہفتوں کے لیے ضمانت منظور کی تھی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کو ‘غیر قانونی اور غیر قانونی’ قرار دیا تھا۔
عدالت نے حکام کو 9 مئی کے بعد اسلام آباد میں درج کسی بھی کیس میں 17 مئی تک پی ٹی آئی سربراہ کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔
عمران خان کو 9 مئی کو نیم فوجی دستوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔
سابق وزیر اعظم نے فوری طور پر رہائی کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا، لیکن عدالت نے ان کی گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا تھا۔
گزشتہ سال اپریل میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے خان نے قبل از وقت انتخابات کے لیے مہم چلائی ہے اور مخلوط حکومت اور فوج کو بے مثال تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔