پی ٹی آئی سربراہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے ایک اور رلیف مل گیا، عدالت نے عمران خان کے خلاف تحائف چھپانے کے کیس کی سماعت روک دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی سربراہ کی جانب سے دائر درخواست پر فیصلہ سنایا، جس میں ان کا ٹرائل ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت سے منتقل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
یہ درخواست 11 مئی کو دائر کی گئی تھی، جس کے ایک روز بعد ایڈیشنل سیشن جج نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان پر فرد جرم عائد کی تھی اور استغاثہ کے تین گواہوں کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے 13 مئی کو طلب کیا تھا۔
ٹرائل کورٹ کے جج نے پی ٹی آئی سربراہ کی کیس منتقل کرنے کی درخواست بھی مسترد کردی تھی۔
سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ان کے پاس چار مختلف درخواستیں ہیں، سیکریٹری الیکشن کمیشن توشہ خانہ کیس ٹرائل کورٹ بھیجنے کے مجاز نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے شکایت بھیج کر قانون پر عمل نہیں کیا، مقررہ مدت گزرنے کے بعد شکایت نہیں بھیجی جا سکتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے عمران خان کی ایک اور کیس میں پیشی سے قبل ہائی کورٹ کے باہر کیے گئے حفاظتی اقدامات پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کرفیو لگا دیا گیا ہے۔
بعد ازاں خواجہ حارث نے چیف جسٹس سے توشہ خانہ کیس کی کارروائی پر حکم امتناع جاری کرنے کی درخواست کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ آنے تک ٹرائل معطل رہے گا، بعد ازاں کیس کی مزید سماعت 8 جون تک ملتوی کردی گئی۔
گزشتہ سال حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے توشہ خانہ سے اپنے اثاثوں کے گوشواروں میں رکھے گئے تحائف کی تفصیلات شیئر نہیں کیں اور الیکشن کمیشن نے گزشتہ سال اکتوبر میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ پی ٹی آئی سربراہ نے تحائف کے حوالے سے جھوٹے بیانات دیے تھے۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے عمران خان کو بدعنوان ہونے کی وجہ سے نااہل قرار دیتے ہوئے تحائف کے بارے میں مبینہ طور پر حکام کو گمراہ کرنے پر عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت سے رجوع کیا تھا۔