اسلام آباد ہائی کورٹ کی ڈائری برانچ سے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی ڈرامائی گرفتاری کے ایک روز بعد پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کو انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے اسی عدالت کے احاطے سے گرفتار کرلیا۔
اسلام آباد پولیس کے اے ٹی ایس حکام نے اسد عمر کو اسلام آباد ہائی کورٹ بار روم کے باہر سے اس وقت اٹھایا جب وہ اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنما چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق پی ٹی آئی کے وکلاء نے اسد عمر کی گرفتاری روکنے کے لیے پولیس سے لڑائی کی، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان پر قابو پا لیا اور پی ٹی آئی رہنما کو لے گئے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے احتجاج کے بعد سابق وزیر خزانہ کے خلاف ان کے اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف دو مقدمات درج کیے گئے تھے، یہ مقدمات اسلام آباد کے ترنول اور آبپارہ تھانوں میں درج کیے گئے تھے۔
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، سینیٹر سیف اللہ سرور خان نیازی اور غلام سرور خان بھی اسد عمر کے ہمراہ تھے، جب سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ان پر چھاپہ مارا۔
پولیس کی جانب سے اسد عمر کو حراست میں لیے جانے کے بعد تینوں رہنما اسلام آباد ہائی کورٹ کے بار روم میں واپس چلے گئے۔
پولیس نے شاہ محمود قریشی کو گرفتار کرنے کی بھی کوشش کی، تاہم وکلاء اور دیگر پارٹی کارکنوں نے پولیس کو پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین کو چھیننے سے روک دیا۔
اسد عمر کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ساتھی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔
شیریں مزاری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کی جگہ بن گئی ہے۔
انہوں نے اسد عمر کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا علاقہ پی ٹی آئی رہنماؤں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرنے کے لیے اچھی جگہ بن گیا ہے۔