افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے اسلام آباد اور کالعدم عسکریت پسند تنظیم ٹی ٹی پی پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے مل بیٹھیں۔
اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کی زیر قیادت انتظامیہ کے وزیر نے کہا، یہ درخواست کی جاتی ہے کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی مذاکرات کے لئے ایک ساتھ بیٹھیں۔
متقی اس وقت پاکستان کے چار روزہ دورے پر ہیں جہاں وہ دو طرفہ اور سہ فریقی مذاکرات میں شرکت کریں گے جس کے دوران خطے کی سلامتی کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
طالبان انتظامیہ کی جانب سے ٹی ٹی پی پر کنٹرول کرنے میں ناکامی پر پاکستان کا غصہ بڑھ گیا ہے جو ملک میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کی وجہ سے ہے۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان کے شمالی اور جنوب مغربی صوبوں میں سلامتی کی صورتحال خراب ہوئی ہے، جس کی وجہ سے حکام کو دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرنا پڑا ہے۔
اسلام آباد نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کابل کی ثالثی میں مذاکرات کے کئی دور منعقد کیے تھے لیکن گزشتہ سال یہ مذاکرات ناکام ہوگئے تھے، جس کے بعد عسکریت پسند گروپ نے دہشت گردی کی سرگرمیاں شروع کردی تھیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے نقصان کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ 20 سالوں میں پاکستان نے دہشت گردی کے باعث 80 ہزار جانیں گنوائی ہیں۔
وزیر خارجہ نے افغانستان میں 44 سال بعد کامیابی کے ساتھ امن کے حصول کے بارے میں بھی بات کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمسایہ ممالک پاکستان اور افغانستان کو درپیش چیلنجز ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں، دونوں ممالک مختلف حالات سے گزرے ہیں اور اب مل کر کام کریں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے روشن مستقبل کی جانب بڑھنا ہوگا۔
پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات برقرار رکھنے میں افغانستان کی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ ہماری توجہ کا مرکز رہا ہے، شروع سے ہی ملک کے ساتھ اقتصادی تعلقات میں دلچسپی رہی ہے۔
افغان رہنما نے کہا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارت جاری ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں معاشی تعلقات جاری رہیں گے۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارتی راستوں کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے متقی نے کہا تجارتی راستوں کی بندش سے عام شہریوں کے لئے روزگار کے متعدد مواقع ختم ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ افغانستان کے توانائی کے ذخائر میں پاکستان کی سرمایہ کاری سے دوطرفہ ترقی میں 10 گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کو گزشتہ دو سالوں سے سیاسی اور معاشی چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن ان میں ترقی کے امکانات موجود ہیں۔
انہوں نے کہا، روزگار اور بے روزگاری سمیت بہت سے مسائل کو مل کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
افغان وزیر خارجہ نے پاکستان، ایران، ترکی، سعودی عرب اور قطر کے ساتھ بہترین تعلقات برقرار رکھنے کے بارے میں بھی بات کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان اور وسطی ایشیا کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی بات چیت اور باہمی تعلقات پر مبنی ہے، ازبکستان، سمرقند اور پاکستان کے حالیہ دورے اچھے تعلقات کی ایک مثال ہیں۔