اسرائیل کی ایک جیل میں 86 روز تک بھوک ہڑتال کرنے کے بعد ایک معروف فلسطینی قیدی کی موت ہو گئی، خضر عدنان پر اسرائیل نے دہشت گردی کے الزامات عائد کیے تھے۔
اسرائیلی جیل سروس کا کہنا ہے کہ منگل کے روز اپنی کوٹھری میں بے ہوش پائے جانے سے قبل انہوں نے طبی امداد سے انکار کر دیا تھا۔
فلسطینی وزیر اعظم نے اسرائیل پر خضر عدنان کو جان بوجھ کر قتل کرنے کا الزام عائد کیا جبکہ اسلامک جہاد نے اسرائیل کو متنبہ کیا کہ وہ سب سے زیادہ قیمت ادا کرے گا۔
45 سالہ عدنان کا تعلق مقبوضہ مغربی کنارے کے شمال سے ہے اور وہ گزشتہ دو دہائیوں سے اسرائیل کی حراست میں تھے۔
وہ اس سے پہلے بھی چار بار بھوک ہڑتال کر چکے ہیں، جس سے فلسطینیوں کو اپنا نام روشن کرنے میں مدد ملی ہے۔
اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کا طویل عرصے تک کھانا کھانے سے انکار کرنا عام بات بن گئی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں طبی مداخلت کی وجہ سے اس طرح کی ہلاکتیں شاذ و نادر ہی ہوئی ہیں۔
عدنان نے 5 فروری کو جنین شہر کے قریب ارابا میں اپنے گھر پر اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں حراست میں لیے جانے کے فورا بعد پانچویں بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔
اسرائیلی حکام نے ان پر دہشت گردی کی حمایت، ایک دہشت گرد گروپ سے وابستگی اور اشتعال انگیزی کا الزام عائد کیا تھا اور ان پر رواں ماہ مقدمہ چلایا جانا تھا۔
تاہم فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ادمیر کا کہنا ہے کہ انھیں جعلی الزامات کے تحت حراست میں لیا جا رہا ہے، جس کا مقصد فلسطینی کارکنوں کو مزید دبانا ہے۔
گزشتہ ہفتے فلسطینی قیدیوں کے کلب نے خبردار کیا تھا کہ عدنان کی صحت کی صورتحال ‘بہت سنگین’ ہے۔