سوڈان کی متحارب افواج نے عالمی طاقتوں کی جانب سے رمضان کے اختتام پر جنگ بندی کی اپیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دارالحکومت خرطوم اور ملک کے دیگر حصوں میں شدید فائرنگ اور دھماکوں سے مقابلہ کیا۔
سوڈان کے آرمی چیف عبدالفتاح البرہان اور ان کے نائب محمد حمدان ڈاگلو کے درمیان ہفتے کے روز شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک 300 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔
سوڈانی ڈاکٹروں کی مرکزی کمیٹی نے کہا ہے کہ رمضان المبارک کے اختتام پر عید الفطر کی تقریبات کا آغاز ہوا تو خرطوم کے متعدد علاقوں پر بمباری کی گئی اور مسلسل چھٹی رات تک گولہ باری اور جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
خرطوم میں گنجان آباد اضلاع میں فضائی حملوں اور ٹینکوں کی فائرنگ سے شدید ترین لڑائی دیکھنے میں آئی ہے، جہاں 50 لاکھ افراد میں سے زیادہ تر بجلی، خوراک یا پانی کے بغیر سخت گرمی میں گھروں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، مواصلات میں شدید خلل پڑا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے خرطوم میں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازوں کے بعد عید کے موقع پر کم از کم تین دن کی جنگ بندی کا الگ الگ مطالبہ کیا ہے۔
مغربی دارفور کے علاقے میں کئی سالوں سے شدید تشدد کی قیادت کرنے والی جنجوید ملیشیا کے ارکان پر مشتمل ایک طاقتور فورس آر ایس ایف نے کہا ہے کہ وہ صبح سے شروع ہونے والی 72 گھنٹے کی جنگ بندی کا عہد کریں گے۔
اس سے پہلے 24 گھنٹے کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا، جمعے کی صبح بھی شدید فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا اور دارالحکومت بھر میں کالے دھوئیں کے بادل اٹھنے لگے۔