اسلام آباد: چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ نے پنجاب الیکشن پر فیصلہ دے دیا ہے اور اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے، اب آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے۔
اس سے ایک روز قبل اعلیٰ انٹیلی جنس حکام نے سپریم کورٹ کو سیکیورٹی صورتحال سے آگاہ کیا تھا، بریفنگ کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے بینچ کو بریفنگ دی، جبکہ ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس اور سیکریٹری دفاع بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ فوجی حکام کی بریفنگ بہت متاثر کن تھی اور اس نے اصل صورتحال پر روشنی ڈالی، لیکن جب کیس کی سماعت ہو رہی تھی تو کوئی بھی ہمیں بریفنگ دینے نہیں آیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب ہمیں آگے بڑھنا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے اعلان کے بعد ہی بریفنگ دی گئی، اب فیصلے کا اعلان ہو چکا ہے، ہم واپس نہیں جا سکتے۔
چیف جسٹس نے یہ ریمارکس تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی تاریخ پر کرانے کی تین درخواستوں کی سماعت کے دوران دیے، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
تاہم آج سپریم کورٹ میں دو اور عرضیاں دائر کی گئیں، جن میں ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کرانے کی مانگ کی گئی ہے۔
ان میں سے ایک درخواست ایک شہری محمد عارف نے دائر کی تھی جبکہ دوسری درخواست سردار کاشف خان کی جانب سے ایڈووکیٹ شاہ خاور نے دائر کی تھی۔
اس کے بعد عدالت نے تینوں درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کرنے کا فیصلہ کیا، چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا اور دعا کی کہ بینچ صحیح فیصلہ دے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے ایگزیکٹیو کا کام پارلیمنٹ کو دیا یا نہیں؟
جسٹس اختر نے استفسار کیا کہ کیا حکومت کبھی سپلیمنٹری گرانٹ پر پارلیمنٹ کی منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے؟
اٹارنی جنرل نے بنچ کو بتایا کہ 2013 میں کٹوتی کی تحریک منظور کی گئی تھی، اس کے بعد انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ صورتحال میں فنڈز کے اجراء کے لئے منظوری حاصل کرنے کا وقت ہے۔
اس پر جسٹس اختر نے اٹارنی جنرل کو بتایا کہ وزارت خزانہ بار بار کہہ چکی ہے کہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری بعد میں لی جاتی ہے، وزارت خزانہ نے آئین کے آرٹیکل 84 کا حوالہ دیا تھا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ قومی اسمبلی نے فنڈز جاری کرنے کے خلاف قرارداد منظور کی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں سنجیدہ ہے، لیکن پارلیمنٹ نے اس پر پابندی عائد کردی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم کو انتخابات کے لیے فنڈز کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کی اکثریت کو اعتماد میں لینا پڑا۔
چیف جسٹس نے خبردار کیا کہ اگر انتخابات کے لیے فنڈز فراہم نہ کیے گئے تو سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ حکومت آئینی عمل کے لئے فنڈز کی فراہمی پر مثبت جواب دے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بینچ کو سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی گئی اور حیرانی ہوئی کہ الیکشن کمیشن کیوں سمجھتا ہے کہ صورتحال ماضی سے زیادہ خراب ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں انتخابات دہشت گردی کے دوران ہوتے تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس سال محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا اس سال بھی انتخابات ہوئے۔
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کو اسمبلی کی اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل، براہ مہربانی یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ صورتحال بہت سنگین ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو بتایا کہ وہ بینچ کے نقطہ نظر کو سمجھ چکے ہیں، اس سے پہلے انتظامی امور پارلیمنٹ کو بھیجنے کی کوئی مثال نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتخابی اخراجات ضروری ہیں، معمولی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزارت دفاع کا جواب تسلی بخش نہیں، انہوں نے کہا کہ اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ 8 اکتوبر کو حالات پرامن رہیں گے؟۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے موقف پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ اس سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے مشاہدے کی بنیاد سیکیورٹی کی عدم فراہمی ہے، لیکن دہشت گردی 1992 سے موجود ہے، 1987، 1991، 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں انتخابات ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس بار کیا انوکھا خطرہ ہے کہ انتخابات نہیں ہو سکتے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پچھلی بار تمام سیکیورٹی فورسز نے مل کر اپنے فرائض سرانجام دیے تھے لیکن اب دو صوبوں میں الگ الگ انتخابات ہوں گے۔
انہوں نے کہا، وزارت دفاع نے بھی ایک اندازہ لگایا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت محض قیاس آرائیوں پر نہیں چل سکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ برطانیہ میں انتخابات وقت پر ہوئے، حالانکہ ملک ورچوئل جنگ میں ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ کیا آئین اسمبلی تحلیل ہونے کے ایک سال بعد انتخابات کرانے کا حکم دیتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے، تاکہ سیکیورٹی آپریشنز کے دوران مقررہ اہداف کو پورا کیا جاسکے، کسی کو توقع نہیں تھی کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے تحلیل ہوجائیں گی۔
جسٹس منیب اختر نے جواب دیا کہ گزشتہ سال اسمبلی تحلیل ہوئی تھی اور اگر عدالت نے نوٹس نہ لیا ہوتا تو ایوان زیریں بحال نہ ہوتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کس آرٹیکل نے عدالت کو الیکشن اگلے سال تک ملتوی کرنے کا اختیار دیا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز اور سیکیورٹی مانگی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیس کی سماعت 27 مارچ کو شروع ہوئی اور اس کے بعد سے ریاضی میں ابہام پایا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فیصلے کے تناسب پر بحث کی گئی، لیکن سپریم کورٹ کو ان تمام وجوہات سے آگاہ نہیں کیا گیا جن کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر ہوئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ فنڈز سے متعلق احکامات ایک ادارے سے دوسرے ادارے کو بھیجے جا رہے ہیں۔
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا، میں اس پیغام کو سمجھتا ہوں جو آپ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فوج نے آپریشن شروع کیا ہے تاکہ انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں، جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت آرٹیکل 245 کا اختیار کیوں استعمال نہیں کر رہی؟
اس نے پوچھا کہ کیا آئین بالادست نہیں ہے؟ انہوں نے ملک کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے پر مسلح افواج کی تعریف کی اور کہا کہ ہر کسی کو پاک فوج کا شکر گزار ہونا چاہئے۔