نئی دہلی: اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بھارت رواں سال کے وسط تک چین کو پیچھے چھوڑ تے ہوئے دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی اسٹیٹ آف ورلڈ پاپولیشن رپورٹ کے مطابق بھارت کی آبادی 1.4286 بلین ہوگی، جبکہ وسط سال میں چین کی آبادی 1.4257 بلین تھی۔
چین میں 1960 کے بعد پہلی بار گزشتہ سال لوگوں کی تعداد میں کمی آئی، جب سابق رہنما ماؤ زے تنگ کی تباہ کن زرعی پالیسیوں کی وجہ سے لاکھوں افراد بھوک سے مر گئے تھے۔
بہت سے لوگوں نے سست روی کو زندگی گزارنے کی بڑھتی ہوئی لاگت کے ساتھ ساتھ افرادی قوت میں جانے اور اعلی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
بیجنگ نے 1980 کی دہائی میں آبادی میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر نافذ کی گئی اپنی سخت ‘ایک بچے کی پالیسی’ کو 2016 میں ختم کر دیا تھا اور 2021 میں جوڑوں کو تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دینا شروع کر دی تھی۔
شرح پیدائش میں کمی اور افرادی قوت کی عمر میں کمی کی وجہ سے چین کو آبادی میں کمی کا سامنا ہے۔
کئی علاقوں نے شرح پیدائش کو بڑھانے کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے، لیکن سرکاری کوششیں اب تک اس کمی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔
بھارت کے پاس حالیہ سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں کہ اس میں کتنے لوگ ہیں کیونکہ اس نے 2011 کے بعد سے مردم شماری نہیں کی ہے۔
بھارت میں ایک دہائی میں ایک بار ہونے والی مردم شماری 2021 میں ہونی تھی، لیکن کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔
اب یہ لاجسٹک رکاوٹوں اور سیاسی ہچکچاہٹ کا شکار ہے، جس کی وجہ سے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر مشق جلد ہی شروع ہوگی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات سے قبل بے روزگاری جیسے متنازعہ معاملات کے اعداد و شمار چھپانے کے لیے جان بوجھ کر مردم شماری میں تاخیر کر رہی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی معیشت ہر سال روزگار کے بازار میں داخل ہونے والے لاکھوں نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔