پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے نمٹنے کے حوالے سے سابق حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کے فیصلے پر تنقید ‘غیر ضروری’ ہے۔
پی ڈی ایم کی قیادت ملک میں دہشت گردی میں حالیہ اضافے کا ذمہ دار سابقہ حکومت کو قرار دیتی ہے، جنوری میں وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ سابق حکومت نے ٹی ٹی پی کو خوش کرنے کی پالیسی اپنائی تھی۔
پی ٹی آئی کی حکومت میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے پاکستانی طالبان کو مرکزی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ انہیں واپس آنا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے کچھ شرائط رکھی گئی ہیں، گروپ کو پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا چاہیے اور افغانستان سے اسلحہ نہیں لانا چاہیے۔
ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہیں یہاں آنا ہے اور امن کے ساتھ رہنا ہے، ان کی بازآبادکاری کرنی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اس وقت کی قومی اسمبلی کو اس معاملے پر ان کیمرہ اجلاس کے دوران بریفنگ دی گئی تھی۔
پی ڈی ایم کی قیادت والی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ان اجلاسوں میں موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو، اس وقت کے آرمی چیف، آئی ایس آئی کے سربراہ اور دیگر تمام افراد نے شرکت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ آج اعتراضات اٹھا رہے ہیں وہ سب بریفنگ میں بیٹھے تھے۔
سابق وزیر نے کہا کہ اس اجلاس کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا کہ انہیں آگے بڑھنا ہے اور طالبان کی واپسی کے حوالے سے لائحہ عمل بنانا ہے، لیکن اس کے فورا بعد پی ٹی آئی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔