سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023، جس کا مقصد چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو محدود کرنا ہے، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے گزرا اور اسے قانون کی شکل دینے کے لیے صدر کو بھیجا گیا۔
تاہم صدر نے اس بل کو آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظرثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیا تھا۔
صدر نے کہا کہ یہ بل پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، اس بل کو ‘رنگین قانون سازی’ ہونے کی وجہ سے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
صدر عارف علوی نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں یہ مناسب ہے کہ بل کو درستی اور جانچ پڑتال کے لیے واپس کر دیا جائے۔
صدر ِپاکستان نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کیلئے پارلیمنٹ کو واپس بھجوادیا
بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے ، صدر عارف علوی pic.twitter.com/pDvWl4Ixji
— The President of Pakistan (@PresOfPakistan) April 8, 2023
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپیلیٹ دائرہ اختیار، مشاورت، نظرثانی اور اصل دائرہ اختیار فراہم کرتا ہے، مجوزہ بل سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار آرٹیکل 184 (3) سے متعلق ہے۔
مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی دائرہ اختیار استعمال کرنے اور اپیل کرنے کے لئے ایک طریقہ کار فراہم کرنا ہے۔
صدر عارف علوی نے سوال کیا کہ یہ قابل ستائش ہو سکتا ہے، لیکن کیا یہ آئینی ترمیم کے بغیر کیا جا سکتا ہے؟۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ عام قانون سازی کے ذریعے آئینی دفعات میں ترمیم نہیں کی جاسکتی، آئین سب سے بڑا قانون ہے، تمام قوانین کے باپ ہے۔
صدر نے مزید کہا کہ آئین ایک عام قانون نہیں ہے، بلکہ بنیادی اصولوں، سپریم قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قوانین کا مظہر ہے۔
آئین کا آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لئے قواعد بنانے کا اختیار دیتا ہے۔