اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر سے متعلق پاکستان تحریک انصاف اور دیگر کی جانب سے دائر آئینی درخواستوں پر سماعت دوبارہ شروع کردی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے پنجاب میں انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
انتخابی ادارے نے انتخابات ملتوی کرنے کی وجوہات کے طور پر سیکورٹی اور مالی رکاوٹوں کا حوالہ دیا تھا۔
بعد ازاں گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے الیکشن کمیشن سے صوبے میں سیکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر کے پی میں بھی انتخابات نہ کرانے کی درخواست کی۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 قومی اسمبلی میں پیش کردیا جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کو ازخود نوٹس لینے کے اختیارات میں ترمیم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بدھ کی سماعت کے آغاز پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کو 4-3 اکثریت سے خارج کر دیا ہے، ججوں کی اکثریت نے انتخابات کا حکم نہیں دیا۔
جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے مشاورت کیسے کی اور جب عدالت کا کوئی حکم ہی نہیں تھا تو صدر نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیسے کیا؟
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم چار ججوں کا فیصلہ تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اپنا جواب دے دیا ہے، جسٹس مندوخیل نے جواب دیا کہ وہ مزید اضافہ کرنا چاہتے ہیں، میں ازخود نوٹس کیس میں اپنے اختلافی نوٹ پر قائم ہہوں۔
ایک موقع پر پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیس کی سماعت کے لیے فل بینچ بنایا جانا چاہیے، سپریم کورٹ کو پہلے ازخود نوٹس کیس کے فیصلے پر ابہام ختم کرنا چاہیے اور فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ 4-3 ہے یا 3-2 کا فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس کے جواب میں الیکشن کمیشن کے وکیل سجل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عمل درآمد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر جمہوریہ سے رابطہ کیا اور پھر صدر نے 30 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ 3-2 اکثریت سے جاری کیا گیا کیونکہ فیصلے پر پانچ ججوں کے دستخط تھے۔
جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ازخود نوٹس کیس کا مختصر حکم پڑھا تھا؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ ہوسکتا ہے کہ ہم نے اسے غلط سمجھا ہو۔
اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے درخواست کی کہ صورتحال کو کم کرنے کے لئے فل بنچ تشکیل دیا جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس حوالے سے تحریری درخواست جمع کرائیں۔
جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا مختصر حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ 4-3 کا فیصلہ ہے؟ جس پر اعظم سواتی نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کے حکم پر عمل درآمد کیا۔