اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں ریمارکس دیے ہیں اگر عمران خان ابھی بھی سرنڈر کر دیتے ہیں تو میں ابھی آئی جی کو کہہ دیتا ہوں کہ ان کو گرفتار نہ کیا جائے۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کے کیس کی سماعت کی، جس دوران پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل خواجہ حارث اور فیصل چوہدری عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جج نے استفسار کیا کہ آپ ایک بات بتایئں مزاحمت کیوں کر رہے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ کیا ضروری ہے کہ عمران خان کو گرفتار کرکے ہی عدالت لائیں؟ جج نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ عدالت آجائیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ لاہور میں حالات خراب ہیں آپ وارنٹ کو معطل کر دیں، جج نے ریمارکس دیے کہ حالات کیوں خراب ہیں اور آپ تعاون کیوں نہیں کر رہے ہیں، اس پر کروڑوں روپے کا نقصان ہوا، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ سارا قصور گورنمنٹ کا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ کیا یہی سختی رکھنی ہے کہ عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری رکھنے ہیں، جج نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ گرفتاری عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کے لیے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان تو خود کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت آنا چاہتا ہوں اور وہ استثنیٰ نہیں مانگ رہے، جج نے ریمارکس دیے کہ اگر قابل ضمانت وارنٹ ہوتے تو مسئلہ ہی کچھ نہ ہوتا، لیکن وارنٹ ناقابلِ ضمانت ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، جج نے ریمارکس دیے کہ آپ جو دلائل بتا رہے وہ قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے مطابق ہیں اور کیس میں شیورٹی تو آئی ہوئی ہے۔
جج نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ اب تک عدالتی طریقہء کار سے سیشن عدالت کو موصول نہیں ہوا، قانون کے مطابق عمران خان نے پولیس کے ساتھ تعاون کرنا ہے مزاحمت نہیں کرنی، مزاحمت کرکے سین کو بنانا نہیں ہے۔
جج نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ غیرقانونی عمل سے آرڈر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔
وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر گرفتار کرنا ہی ہے تو پھر ہم ہائیکورٹ کیوں جاتے۔ جج نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ نے میرے آرڈر کو بحال رکھا ہے۔
جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ اگر عمران خان ابھی بھی سرنڈر کر دیتے ہیں تو میں ابھی آئی جی کو کہہ دیتا ہوں کہ ان کو گرفتار نا کیا جائے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس ملزمان پیش ہو جاتے ہیں اور وارنٹ ختم کرنے کی درخواست کرتے ہیں پھر ہم ختم کر دیتے ہیں، غریب ملک ہے کروڑوں روپے وارنٹ پر خرچ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
عدالت نے الیکشن کمیشن اور اسلام آباد پولیس کو نوٹس کرکے بلاتے ہوئے سماعت میں وقفہ کر دیا۔