پولیس اور رینجرز زمان پارک میں پی ٹی آئی رہنما کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے ہیں، یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب پولیس نے پی ٹی آئی کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے علاقے میں آنسو گیس کے گولے داغے۔
دوسری جانب اسپتال ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ گزشتہ روز سے جاری جھڑپوں میں کم از کم 54 پولیس اہلکار اور 8 شہری زخمی ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے حامیوں کی رات بھر پولیس کے ساتھ بار بار جھڑپیں ہوئیں، جب وہ زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ میں چھپے ہوئے تھے، دریں اثنا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو بھی گرفتار کیا تھا۔
پولیس نے عمران خان کی رہائش گاہ کے قریب رات بھر ان کی پی ٹی آئی کے حامیوں کے ساتھ جھڑپیں کیں، آنسو گیس کے گولے داغے اور مشتعل ہجوم کی طرف سے پھینکے گئے پتھروں کو چکمہ دیا۔
عدالتی احکامات پر عمل درآمد کے لیے پولیس کی کارروائی منگل کو اس وقت شروع ہوئی جب بھاری نفری نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، تاہم مشتعل ہجوم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے رہنما کو گرفتار کرنے کا کوئی موقع دینے سے انکار کردیا۔
پی ٹی آئی نے سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر وارنٹ گرفتاری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
عمران خان کے وکیل نے منگل کو عرضی دائر کی اور عدالت سے درخواست کی کہ اس معاملے کو اسی دن سماعت کے لئے بنچ کے سامنے مقرر کیا جائے۔
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض اٹھایا کہ درخواست میں معزول وزیراعظم کی بائیو میٹرک تصدیق نہیں ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اپیل اور اس پر اٹھائے گئے اعتراضات کی سماعت کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے تحریک انصاف سے استفسار کیا کہ کیا اس نے درخواست پر اعتراضات دور کیے ہیں؟
اس پر پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ عدالت کو معلوم ہے۔
جسٹس فاروق نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ آپ کے اقدامات کا نتیجہ ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے وکیل کو یہ بھی بتایا کہ درخواست ابھی طے نہیں ہوئی اور وہ طے ہونے کے بعد اس کی سماعت کریں گے۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ عدالت نے جو ریلیف دیا ہے اس پر کیا ہوا؟ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہم دیکھیں گے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
دوسری جانب خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس کی سماعت دوپہر 12 بجے مقرر کی جائے۔
رینجرز کی تعیناتی کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین نے آج سلسلہ وار ٹویٹس میں دعویٰ کیا کہ اصل ارادہ انہیں اغوا اور قتل کرنا ہے کیونکہ پولیس نے اب براہ راست فائرنگ کا سہارا لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا اسٹیبلشمنٹ سے سوال ہے کہ وہ غیر جانبدار ہیں، کیا یہ آپ کا غیر جانبداری کا نظریہ ہے۔
After our workers & ldrship faced police onslaught since yesterday morning of tear gas, cannons with chemical water, rubber bullets & live bullets this morning; we now have Rangers taking over & are now in direct confrontation with the people. My question to the Establishment,
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) March 15, 2023
انہوں نے کہا کہ رینجرز براہ راست نہتے مظاہرین اور سب سے بڑی سیاسی جماعت کی قیادت کا سامنا کر رہی ہے، جب ان کے رہنما کو پہلے ہی غیر قانونی وارنٹ اور مقدمے کا سامنا ہے اور جب حکومت انہیں اغوا کرنے اور ممکنہ طور پر قتل کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟
عمران خان نے پی ٹی آئی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں وہ پاکستان کے سامنے بیٹھے ہیں اور پارٹی کے جھنڈے آنسو گیس کے کنستروں سے سجائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں آج پوری قوم سے کہہ رہا ہوں کہ وہ ایک بار پھر تیار ہیں، وہ دوبارہ آنے والے ہیں۔
وہ ہمارے لوگوں کو آنسو گیس دیں گے اور اس طرح کے دیگر کام کریں گے، لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے پاس ایسا کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
عمران خان نے کہا کہ جس طرح سے پولیس ہمارے لوگوں پر حملہ کرتی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔
انہوں نے اس گھر کے اندر پانی کی توپیں، آنسو گیس، گولہ باری کی جہاں نوکر اور عورتیں تھیں۔
Clearly "arrest" claim was mere drama because real intent is to abduct & assassinate. From tear gas & water cannons, they have now resorted to live firing. I signed a surety bond last evening, but the DIG refused to even entertain it. There is no doubt of their mala fide intent. pic.twitter.com/5LZtZE8Ies
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) March 15, 2023
پی ٹی آئی سربراہ نے دعویٰ کیا کہ وہ ایف ایٹ کچہری میں پیش نہیں ہو رہے، کیونکہ دہشت گردوں نے دو بار ایف 8 کچہری کو نشانہ بنایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ میں سیکیورٹی کی وجہ سے پیش نہیں ہوا، اب وہ دوبارہ تیاری کر رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انتشار سے بچنے کے لیے انہوں نے ایک حلف نامے پر دستخط کیے تھے اور ان کے وکیل اشتیاق اے خان نے اسلام آباد پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کو ضمانت پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 76 کے مطابق اگر گرفتار افسر کو ضمانتی مچلکے دیے جاتے ہیں، تو وہ گرفتاری نہیں کر سکتے۔
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ اس کے بعد پولیس کے پاس انہیں گرفتار کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
تاہم پی ٹی آئی سربراہ نے الزام عائد کیا کہ ڈی آئی جی نے جان بوجھ کر بانڈ لینے سے انکار کردیا کیونکہ ان کی گرفتاری لندن منصوبے کا حصہ تھی۔
لندن پلان میں عمران خان کو جیل میں ڈالنے، پی ٹی آئی کو شکست دینے اور نواز شریف کے تمام کیسز ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، مجھے جیل میں ڈالنا لندن کے منصوبے کا حصہ ہے، اس کا قانون سے کوئی تعلق نہیں اور میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔