پاکستان نے آئی ایم ایف سے نرم رویہ اختیار کرنے کے لیے امریکا سے مدد طلب کرلی ہے، کیونکہ آئی ایم ایف کی جانب سے بیرونی فنانس کی یقین دہانیوں وجہ سے عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کرنے میں تاخیر ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ جون 2023 کے آخر تک اس خلا کو پر کرنے کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کثیرالجہتی قرض دہندگان سے 6 سے 7 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کی تصدیق حاصل کرے۔
قرض دہندہ کو قائل کرنے میں ناکامی کے بعد اسلام آباد کے پاس واشنگٹن اور اس کے مغربی اتحادیوں سے مدد لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے، تاکہ عملے کی سطح کے معاہدے کی طرف بڑھنے کے لئے آئی ایم ایف سے نرم سلوک حاصل کیا جاسکے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں موجود امریکی سفارتی عملے کے ساتھ رابطے قائم کیے تھے اور امریکی محکمہ خزانہ کی مدد سے اس تعطل کو ختم کرنے میں مدد کی درخواست کی تھی۔
انکل سیم کی آشیرباد کے بغیر چیزیں مطلوبہ سمت میں آگے نہیں بڑھ سکتیں، حالانکہ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے مشورے کے تحت تمام پیشگی اقدامات پر عمل درآمد کیا تھا، جو ان کے لیے ممکن تھے۔
اب آئی ایم ایف دوست ممالک اور کثیر الجہتی قرض دہندگان سے جون 2023 کے آخر تک بیرونی کھاتوں پر 6 سے 7 ارب ڈالر کے فنانسنگ خلا کو پر کرنے کے لئے 200 فیصد یقین دہانی حاصل کرنے کے لئے کہہ رہا ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات سے باخبر ایک عہدیدار نے انکشاف کیا کہ تازہ ترین مذاکرات کی وجہ سے بیرونی فنانسنگ کا فرق اب 7 ارب ڈالر سے کم ہو کر 6 ارب ڈالر رہ گیا ہے تاہم آئی ایم ایف نے واضح کیا ہے کہ اسلام آباد کو ایس ایل اے پر دستخط کے لیے دوست ممالک اور کثیر الجہتی قرض دہندگان سے یقین دہانی حاصل کرنا ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف سمجھتا ہے کہ گیند پاکستان کی عدالت میں ہے، لیکن اسلام آباد کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ جب آئی ایم ایف اپنی منظوری دے گا تو بیرونی فنانسنگ کے خلا کو پر کیا جائے گا۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستانی فریق آگے کیسے بڑھیں گے، کیونکہ دونوں فریق ایس ایل اے پر دستخط میں تاخیر کے لئے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔
ایک عہدیدار نے کہا کہ فنڈ کا خیال ہے کہ بیرونی فنانسنگ کی مکمل ضمانت کے بغیر، قرض کی سہولت کی پائیداری کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے۔
ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے رات گئے بتایا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پیر کو اسٹیٹ بینک کے حکام کے ساتھ حتمی ملاقات ہوئی اور اب انہیں امید ہے کہ آئندہ چند روز میں معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔
عہدیدار کے مطابق آئی ایم ایف نے بجلی کے شعبے کی سبسڈی کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا، کیونکہ فنڈ کے عملے نے اعتراض اٹھایا کہ حکومت نے صرف اگلے مالی سال 2023-24 کے اختتام تک وعدے کیے ہیں۔
تاہم آئی ایم ایف بجلی کی سبسڈی کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنے کا وعدہ چاہتا تھا، لہٰذا انہوں نے گزشتہ ہفتے ہونے والے آخری اجلاس میں اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت کے الفاظ میں تبدیلی لانے کا مطالبہ کیا۔