وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے تصدیق کی ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف مختلف تحقیقات جاری ہیں۔
ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز کے لیفٹیننٹ جنرل حمید کے کورٹ مارشل کے مطالبے کی بھی حمایت کی۔
انہوں نے استفسار کیا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا نیا چیف جسٹس مقرر کرنے کا مینڈیٹ کس نے دیا؟
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر فیض حمید اس طرح کے معاملات میں ملوث تھے تو انہوں نے واقعی ادارے اور ملک کو نقصان پہنچایا۔
جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کے کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو تکنیکی بنیادوں پر ہائی کورٹ سے نکال دیا گیا اور فیض حمید کے خلاف ان کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے تھیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے تھی۔
رانا ثناء اللہ نے مزید انکشاف کیا کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ کے بھائیوں کے خلاف بھی مالی بے ضابطگیوں کی مختلف تحقیقات جاری ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ کے بھائی اپنی ذاتی حیثیت میں کچھ نہیں کر سکتے تھے اور جو حقائق سامنے آئے ہیں ان کے مطابق فیض حمید زیادہ تر خود کام کرتا تھا۔
رانا ثناء اللہ نے آرمی چیف کی کاروباری برادری سے حالیہ ملاقات کو بھی جائز قرار دیا اور اسے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر تاجر حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں تو معاشی استحکام آسان ہوجاتا ہے، وزیر خزانہ اور آرمی چیف کے لیے تاجروں سے ملاقات ضروری ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے بارہا اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر سیاست میں تلخی ریاست پر اثر انداز ہوتی ہے تو اداروں کو ان معاملات کو حل کرنا چاہئے، وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ ایک آدمی کی ذہنیت کی وجہ سے سیاست گندی ہو گئی ہے۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ یہ انتخابات ملک کو عدم استحکام اور مستقل بحران کی طرف دھکیل دیں گے۔