سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق از خود نوٹس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
چیف جسٹس نے عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدرعابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران سیٹ اپ کا اعلان ایک ساتھ ہوتا ہے، الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے، نگران وزیر اعلی کا نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں حکومت آئینی زمہ داری پوری نہیں کررہی؟ 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نگران وزیراعلیٰ الیکشن کی تاریخ دینے کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتا ہے؟ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا جب ججز دستخط کردیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔
عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ صدر مملکت نے مشاورت کےلئے خط لکھے ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں، آئین میں توکہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کرینگے صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کہ گورنر تاریخ نہیں دے رہا، صدر بھی ایڈوائس کا پابند ہے تو الیکشن کیسے ہوگا؟
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ کیا وزیر اعظم ایڈوائس نہ دے تو صدر الیکشن ایکٹ کے تحت اختیار استعمال نہیں کرسکتا، پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار تفویض کیا ہے۔
عابد زبیری نے کہا کہ تفویض کردہ اختیارات استعمال کرنے کےلیے ایڈوائس کی ضرورت نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔