اسلام آباد: وزارت خزانہ و محصولات نے ملک کی بگڑتی ہوئی مالی صورتحال کے پیش نظر اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) کو تنخواہوں سمیت بلوں کی کلیئرنگ روکنے کی ہدایت کردی۔
وزارت خزانہ نے اگلے نوٹس تک منسلک محکموں کی کلیئرنگ روکنے کی بھی ہدایت کی۔
سرکاری ذرائع نے جمعہ کی رات تصدیق کی کہ آپریشنل لاگت سے متعلق ریلیزز کو بنیادی طور پر ملک کی معاشی صورتحال کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بقایا بلوں کی کلیئرنس کے لیے اے جی پی آر کے دفتر گئے تھے، لیکن انہیں بتایا گیا کہ وزارت خزانہ نے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ موجودہ مشکل مالی حالات کی وجہ سے تنخواہوں سمیت تمام بلوں کی ادائیگی روک دیں۔
صحیح وجوہات کا پتہ نہیں چل سکا کہ بلوں کی کلیئرنس کو فوری طور پر کیوں روک دیا گیا، اس اقدام کے پیچھے ایک بڑی وجہ طویل مالی مشکلات کو قرار دیا جا سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دفاع سے وابستہ اداروں کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی پہلے ہی اگلے ماہ کے لیے کی جا چکی ہے۔
اسحاق ڈار نے 22 فروری کو روتھشائلڈ اینڈ کمپنی کے وفد سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ حکومت معیشت کو استحکام اور ترقی کی جانب گامزن کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرنے اور تمام بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
اسحاق ڈار کا آئی ایم ایف کی قسط کھولنے کا عزم 20 فروری کو دیکھا جا سکتا ہے، جب قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر فنانس (سپلیمنٹری) بل 2023 یا منی بجٹ کی منظوری دی تھی۔
بل میں کاروں اور گھریلو آلات سے لے کر چاکلیٹ اور کاسمیٹکس تک کی درآمدات پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کردیا گیا ہے، جنرل سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دیا گیا۔
بل کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیر اعظم آئندہ چند روز میں کفایت شعاری کے اقدامات کا بھی اعلان کریں گے۔