چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کا فورم بائی پاس کیا جا سکتا ہے اگر ایمرجنسی ہو، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبرپختون میں انتخابات پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔
بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم صدر سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دو درخواستیں ہیں وہ اب آؤٹ ڈیٹ ہوچکی ہیں، اس پر وضاحت کی ضرورت ہے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کیس کے لیے وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کے لیے تیاری مشکل ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کل کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے، ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا، وقت جلدی سے گزر رہا ہے، وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ طویل سماعت نہیں کرسکتے۔۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر کی درخواستیں ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں، جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہوگا کہ اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئی یا نہیں، دوسرا سوال یہ ہے کہ اسمبلی کو بھی 184(3) میں دیکھنا چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا، ہمارے سامنے 3 معاملات ہیں، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے؟
جسٹس جمال نے کہا کہ از خود نوٹس پر تحفظات ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ از خود نوٹس بعد میں لیا پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے ہائیکورٹ کا 10 فروری کا آرڈر تھا، ہمارے سامنے بہت سے فیکٹرز تھے جن کی بنیاد پر از خود نوٹس لیا، ہائیکورٹ میں طویل کارروائی چل رہی ہے اور وقت گزرتا جار ہا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بنچ میں تھے، جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا اس پر چیف جسٹس بولے کہ بہت سی وجوہات تھیں، جن کی وجہ سے ازخود نوٹس لیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین انتخابات کا وقت بتاتا ہے جو ختم ہورہا ہے، ہائی کورٹ کا فورم بائی پاس کیا جا سکتا ہے اگر ایمرجنسی ہو، سپریم کورٹ کے لیے آسان تھا کہ دو دائر درخواستیں مقرر کر دیتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکشن 57 انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ہے، بہت سے نئے نکات آگئے ہیں، جن کی تشریح ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے، ہمیں آئین کو دیکھنا ہے اس پر عمل درآمد ہورہا ہے۔