محققین کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے جینیاتی ایڈیٹنگ کی مدد سے ایسی مرغیاں تیار کی ہیں جن کے انڈوں سے صرف مادہ مرغیاں ہی نکلیں گی۔ اس زبردست پیش رفت کے باعث ان اربوں نروں کو مارے جانے سے روکا جا سکے گا جنھیں صرف اس لیے مار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ انڈے نہیں دے سکتے۔ ان مادہ مرغیوں اور ان کے انڈوں میں بڑے ہونے کے بعد جینیاتی ایڈیٹنگ کا کوئی سراغ نہیں رہ جاتا۔ جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’کمپیشن اِن ورلڈ فارمنگ‘ نے اس ریسرچ کی حمایت کی ہے۔
تل ابیب کے قریب واقع وولکانی انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے اس پراجیکٹ کے چیف سائنسدان ڈاکٹر یووال سینامون نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ان مرغیوں کا پولٹری انڈسٹری میں جانوروں کی فلاح و بہبود پر بے پناہ اثر ہو گا۔ ’مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم نے ایک ایسا سسٹم بنایا ہے جو میرے خیال میں صنعت میں مکمل طور پر انقلاب برپا کر سکتا ہے، سب سے پہلے تو مرغیوں کو اس سے فائدہ ہو گا، اس کے علاوہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس سے اس زمین پر رہنے والا ہر شخص متاثر ہوتا ہے۔‘
گولڈا ہینز کہلانے والی ان مرغیوں کے جینز میں ایسی ایڈیٹنگ کی گئی ہے جن سے ان کے دیے گئے انڈوں میں نر ایمبریو کی نشونما نہیں ہو سکے گی۔ جب کئی گھنٹوں تک انڈوں کو نیلی روشنی میں رکھا جائے گا تو یہ ڈی این اے ایکٹیویٹ ہو جائے گا۔ مادہ مرغیوں کا ایمبریو نیلی روشنی سے متاثر نہیں ہو گا اور معمول کے مطابق پروان چڑھے گا۔ ڈاکٹر سینامون کہتے ہیں کہ مرغیوں کے اندر یا ان کے دیے گئے انڈوں کے اندر کوئی اضافی جینیاتی مواد نہیں ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پولٹری فارمز کو وہی مرغیاں اور صارفین کو وہی انڈے ملیں گے جو آج ملتے ہیں۔ صرف ایک بہت چھوٹا سا فرق پیداوار کے مرحلے میں نیلی روشنی کا ہو گا۔‘ ڈاکٹر سینامون کی ٹیم نے اب تک اپنی تحقیق شائع نہیں کروائی ہے کیونکہ وہ اپنی ذیلی کمپنی ہمین پولٹری کے ذریعے اس ٹیکالوجی کا لائسنس حاصل کرنا چاہ رہے ہیں، اس لیے اس تحقیقی گروپ سے باہر کے سائنسدان اب تک ان دعووں کا تجزیہ نہیں کر سکے ہیں۔ مگر اسرائیلی ٹیم نے برطانوی تنظیم کمپیشن اِن ورلڈ فارمنگ (سی آئی ڈبلیو ایف) سے مل کر کام کیا ہے جس کے ارکان نے اس فرم کا دورہ کیا اور تین برسوں تک اس تحقیق پر نظر رکھی۔ اس تنظیم کے چیف پالیسی ایڈوائزر پیٹر سٹیفنسن نے کہا کہ یہ پیش رفت جانوروں کی بہبود کے لیے ’انتہائی اہم پیش رفت‘ ہو سکتی ہے۔ اُنھوں نے کہا: ’عام طور پر میں فارمی جانوروں کی جینیاتی ایڈیٹنگ کے بارے میں محتاط رہتا ہوں۔ مگر یہ غیر معمولی کیس ہے اور مجھے اور سی آئی ڈبلیو ایف میں میرے ساتھی اس کی حمایت کرتے ہیں۔
‘
’اگلا اہم قدم یہ دیکھنا ہے کہ مرغی اور اس کے پیدا کیے گئے مادہ چوزے جو انسانوں کے لیے انڈے دیں گے، وہ اپنی فلاح کے حوالے سے کسی غیر متوقع مسئلے کے بغیر کمرشل دورانیے کی زندگی گزار سکتے ہیں یا نہیں۔