طب کے حوالے سے دنیا کے بہترین ترین ملک تصور کیے جانے والے امریکا میں سالانہ 74 لاکھ مریضوں کی بیماری کی غلط تشخیص کا انکشاف ہوا ہے، جس سے وہاں سالانہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد یا تو ہلاک ہوجاتے ہیں یا پھر وہ عمر بھر کے لیے معذور اور بیمار بن جاتے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت کے صحت سے متعلق ادارے کی جانب سے جاری کردہ تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا بھر میں ایمرجنسی میں لائے گئے ہر 18 میں سے ایک مریض کی بیماری کی غلط تشخیص کی جاتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماہرین نے سال 2000 سے 2021 تک شائع ہونے والی 300 مختلف تحقیقات کا جائزہ لیا اور ان تحقیقات سے نتائج اور اعداد و شمار اخذ کیے گئے۔
تحقیقات کے اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ امریکا بھر میں ہسپتالوں کے ایمرجنسی میں لائئ گئے مریضوں میں سے سالانہ اوسطا 74 لاکھ مریضوں کی بیماریوں کی غلط تشخیص کی جاتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایمرجنسیز میں لائے گئے مریضوں کو کوئی اور بیماری ہوتی ہے مگر ان میں تشخیص کسی تیسری بیماری کی کردی جاتی ہے اور اسی کا علاج کرنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکا بھر میں سالانہ بیماریوں کی غلط تشخیص کے بعد غلط علاج کروانے سے تین لاکھ 70 ہزار افراد یا تو ہلاک ہوجاتے ہیں یا پھر انہیں عمر بھر کے لیے معذوری یا کسی بیماری کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔
رپورٹ سے معلوم ہوا کہ امریکا بھر کے ہر ایمرجنسی وارڈ میں سالانہ 1400 مریضوں کی بیماریوں کی غلط تشخیص ہوتی ہے، جس وجہ سے ان کا علاج بھی غلط کیا جاتا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ عام طور پر امریکا بھر میں پانچ بیماریوں کی غلط تشخیص کی جاتی ہے، ان بیماریوں میں ’فالج، دل اور سینے کے امراض، خون کے جم جانے، ریڑھ کی ہڈی میں درد یا بیماری اور رگوں میں خون کی ترسیل رک جانا وغیرہ شامل ہیں۔
یعنی جن افراد میں مذکورہ پانچوں بیماریوں کی تشخیص کی جاتی رہی، انہیں درحقیقت یہ بیماریاں ہوتی ہی نہیں مگر انہیں ادویات ان ہی بیماریوں کی دی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیاکہ مذکورہ بیماریوں کو ابتدائی چند علامات کی وجہ سے تشخیص کیا جاتا رہا ہے اور فوری طور پر مریضوں کو ان ہی بیماریوں کی ادویات دی جاتی رہی ہیں لیکن بعد میں کیے جانے والے ٹیسٹس میں مذکورہ بیماریوں کی تشخیص ہی نہیں ہوتی