کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے عدم شواہد پر پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کو مزید دو مقدمات میں بری کردیا۔
گزشتہ روز (17 دسمبر کو) انسداد دہشت گردی 7 کے جج نے سنٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کی، جج نے دونوں فریقین کے شواہد اور حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد محفوظ فیصلہ سنایا تھا۔
عدالت نے لیاری میں سال 2012 کے دوران جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کے دوران پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے کے الزامات میں عزیر بلوچ اور اس کے دو ساتھیوں کو بری کر دیا۔
پروسیکیوشن کے مطابق عزیر بلوچ نے شریک ملزم شاہد عرف ایم سی بی اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ یکم مئی 2012 کو نیپیئر تھانے کی حدود میں گرفتاری کے چھاپے کے دوران قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ملزمان نے اسلحہ اور تشدد کا سہارا لے کر علاقے میں خوف و ہراس پھیلایا تھا
اس کے علاوہ عدالت نے عزیر بلوچ کو خارادر پولیس اسٹیشن میں درج اسی طرح کے ایک اور مقدمے میں بری کردیا۔
پروسیکیوشن نے الزام لگایا کہ پولیس نے لیاری میں گینگ وار میں ملوث مجرموں کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا تھا جہاں عزیر بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے قتل کرنے کی نیت سے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی
سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو جرم کے ارتکاب پر سزا سنانے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں۔
وکیل دفاع عابد زمان نے موقف اختیار کیا کہ پروسیکیوشن کے شواہد میں واضح تضاد ہے، موکل کے خلاف لگائے الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں۔
عزیر بلوچ نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے الزامات کی تردید تھی۔
خیال رہے کہ عزیر بلوچ کے خلاف نیپیئر اور خارادر پولیس اسٹیشن میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی دفعات 324، 337، 427، 34 کے تحت دو الگ الگ مقدمات درج تھے۔
مبینہ لیاری گینگ وار عزیر بلوچ قتل، قتل کی کوشش، اغوا، ظلم و جبر، پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے سے متعلق درجنوں فوجداری مقدمات درج ہیں۔
اب تک عدم شواہد کی بنا پر عدالت نے عزیر بلوچ کو تقریباً 22 مقدمات میں بری کردیا ہے۔