ھارت کی سپریم کورٹ نے گینگ ریپ کیس میں عمر قید کی سزا ملنے والے 11 افراد کو رہا کرنے کے خلاف بلقیس بانو کی درخواست مسترد کردی، جس میں مجرموں کی رہائی کے لیے گجرات حکومت کو فیصلہ کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
بار اینڈ بینچ کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے مئی کے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ بلقیس بانو کا گینگ ریپ کرنے اور ان کے اہلِ خانہ کو قتل کرنے کے 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کا فیصلہ حکومت گجرات کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
یہ حکم جسٹس اجے رستوگی اور وکرم ناتھ پر مشتمل 2 رکن بنچ نے دیا۔
بلقیس بانو کو 3 مارچ 2002 کو گجرات میں فسادات کے دوران گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی تھے، بلقیس بانو اس وقت 19 سال کی اور حاملہ تھیں۔
احمد آباد کے قریب فسادیوں نے ان کی 3 سالہ بیٹی سمیت خاندان کے 14 افراد کو قتل کر دیا تھا، ایک آدمی نے بچی کو ماں کے بازو سے چھین کر اس کا سر پتھر پر مار دیا تھا۔
ڈان اخبار کی 17 اگست کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں عمر قید کی سزا ملنے والے 11 افراد کو گودھرا جیل سے رہا کر دیا گیا تھا، گجرات حکومت نے ان کی معافی کی درخواست منظور کر لی تھی، مجرموں کی رہائی کے بعد رشتہ داروں کی طرف سے ان کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا گیا تھا۔
بلقیس بانو نے نومبر میں سپریم کورٹ کے مئی کے فیصلے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی جس میں مجرموں کی عمر قید کی سزا معاف کرنے کا اختیار گجرات حکومت کو دیا گیا تھا۔
بلقیس بانو نے درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ سپریم کورٹ کی رائے کے مطابق مجرموں کی رہائی کا فیصلہ کرنے کے لیے گجرات کی حکومت کی جانب سے کرنا مناسب ہے، یہ کوڈ آف کریمنل پروسیجر کے ضابطوں کے خلاف ہے۔
بلقیس بانو نے دفعہ 432 (7) (بی) کا حوالہ دیا تھا، جو سزا معطل کرنے یا معاف کرنے سے متعلق ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ جس ریاست کے اندر مجرم کو سزا سنائی گئی، وہی حکومت معافی پر بھی غور کرے گی، مجرموں کو مہاراشٹرا کی عدالت نے سزا سنائی تھی۔
بلقیس بانو نے دلائل دیئے تھے کہ کوڈ آف کریمنل پروسیجر کی دفعات کے مطابق مہاراشٹرا کی حکومت کو معافی کی درخواست کو دیکھنا چاہیے تھا۔
عدالت نے ایک مجرم رادھیشیام بھگوان داس شاہ کی طرف سے دائر درخواست پر اپنا فیصلہ سنایا تھا، جس میں اس نے حکومت گجرات سے 9 جولائی 1992 کی پالیسی کے تحت قبل ازوقت رہائی پر غور کرنے کی درخواست دی تھی، جو اس کو سزا سنائے جانے کے وقت نافذ العمل تھی۔
لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے حکم نامے میں بتایا گیا کہ مئی 2022 کے فیصلے میں کوئی غلطی نظر نہیں آئی، اس نے یہ بھی کہا کہ نظرثانی کی درخواست میں پیش کی گئی مثالیں عدالت کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوئیں۔
عدالت نے حکم نامے میں بتایا کہ نظر ثانی کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
بلقیس بانو کی وکیل ایڈوکیٹ شوبھا گپتا نے ویڈیو پیغام میں وضاحت دی کہ 11 مجرموں کی رہائی کا معاملہ نظر ثانی درخواست کا موضوع نہیں تھا۔
شوبھا گپتا نے بتایا کہ یہ رٹ پٹیشن کا موضوع ہے جو ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
نومبر میں بلقیس بانو نے بتایا کہ رادھیشیام بھگوان داس شاہ کی رہائی کی درخواست میں مرضی کا حکم لینے کے لیے جرم کی نوعیت ظاہر نہ کرکے عدالت کو گمراہ کیا گیا۔
بلقیس بانو کی وکیل شوبھا گپتا نے دلائل دیے کہ رادھیشیام بھگوان داس شاہ نے بڑی چالاکی سے بلقیس بانو کا نام چھپایا۔