پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ کو اس وقت تحلیل کر دیا گیا جب چار ججوں نے غیر جانبدارانہ فیصلے کو یقینی بنانے کے لیے خود کو الگ کر لیا۔
پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ساتھ پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے بینچ میں جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی موجودگی پر اعتراض اٹھایا تھا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ دو صوبوں میں انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ سے دو ججوں کو الگ کیا جائے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت آج صبح ساڑھے 11 بجے شروع کی، تاہم قانون دانوں کے درمیان مشاورت کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی، جس کے نتیجے میں بنچ ٹوٹ گیا۔
سپریم کورٹ نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی شمولیت پر پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) اور مسلم لیگ (ن) سمیت اتحادی جماعتوں کے تحفظات کے بعد 14 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کیا تھا۔
بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی بینچ سے دستبردار ہوگئے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر پنجاب کو ارسال کی ہے، تاہم گورنر نے اس پر عمل نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت روزانہ سماعت کرے گی، کل (منگل) صبح 9:30 بجے کارروائی شروع کی جائے گی اور کل تک اسے ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ آئین نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس کی تشریح پر منحصر ہے۔
سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ نے دونوں صوبوں میں انتخابات میں تاخیر کا معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوانے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ان سے دائرہ اختیار استعمال کرنے کی ہدایت کی تھی۔
