اسلام آباد: انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جوڈیشل کمپلیکس پر حملے سے متعلق کیس میں پی ٹی آئی کے صدر پرویز الٰہی کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی 20 ہزار روپے کے مچلکے پر ضمانت منظور کرلی۔
پی ٹی آئی کے صدر کو یکم ستمبر کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی تحویل سے رہائی کے چند گھنٹوں بعد گرفتار کیا گیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ لاہور ہائی کورٹ نے اس دن حکام کو ان کی گرفتاری سے واضح طور پر روک دیا تھا۔
یکم ستمبر کا حکم ہائی کورٹ کی جانب سے 13 جولائی 2023 کو جاری کیے گئے اسی طرح کے احکامات کا اعادہ تھا، پرویز الٰہی کو 9 مئی کے فسادات کے بعد سے بار بار گرفتار اور حراست میں رکھا گیا ہے۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے صدر پر جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کے لیے فسادیوں کو اسلام آباد بھیجنے اور اس کے لیے گاڑیاں اور لاٹھیاں فراہم کرنے کا الزام ہے، انہوں نے مزید کہا کہ نامعلوم مجرموں کے بارے میں پوچھ گچھ اور گاڑیوں کی بازیابی کے لیے ان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی جا رہی ہے۔
گزشتہ سماعت میں جج ذوالقرنین نے استغاثہ کی 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا تھا۔
سماعت کے دوران پرویز الٰہی کے وکیل سردار عبدالرزاق نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی آر درج ہونے کے 6 ماہ بعد ان کے موکل کا نام ایف آئی آر میں شامل کیا گیا۔
پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور اسد عمر سمیت دیگر کو اسی کیس میں ضمانت دی گئی ہے، ان کے موکل کو بھی ضمانت دی جائے۔
تاہم استغاثہ نے ضمانت کی درخواست کی مخالفت کی، وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی آر میں الٰہی کا نام نہیں ہے، 3 روزہ جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس کچھ بھی برآمد نہیں کرسکی۔
انہوں نے کہا کہ پرویز الٰہی کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا، اس پر پراسیکیوٹر راجہ نوید نے کہا کہ جن دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے وہ ناقابل ضمانت ہیں۔
جج نے ریمارکس دیے کہ پرویز الٰہی کو فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) حملہ کیس میں نامزد نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے جسمانی ریمانڈ کے دوران کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔
دلائل سننے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے الٰہی کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔
