اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان دوطرفہ تعلقات پر تعطل جاری ہے، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے تعلقات کو معمول پر لانے کی واحد ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی ہے۔
نریندر مودی نے اپنے پڑوسیوں اور اہم علاقائی ممالک کے ساتھ نئی دہلی کے کشیدہ تعلقات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے جاپانی میڈیا کو انٹرویو میں بتایا کہ بھارت ھمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔
تاہم یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی اور دشمنی سے پاک سازگار ماحول پیدا کریں، بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرے۔
واضح رہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان نئی دہلی کے کسی بھی خدشات کو دور کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کو دوسری جانب سے بھی یہی توقع ہے۔
گزشتہ ماہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے اپنے پہلے دورہ بھارت کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات یا بامعنی روابط کے حوالے سے پاکستان کا موقف اس وقت تک برقرار رہے گا، جب تک وہ 5 اگست 2019 کو کیے گئے یکطرفہ اقدامات کا جائزہ لیتا رہے گا۔
کشمیر کی حیثیت پر سخت موقف برقرار رکھنے کے علاوہ، بھارت 22 مئی سے 24 مئی تک غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں جی 20 سیاحتی اجلاس کی میزبانی بھی کر رہا ہے۔
اسلام آباد 1947 میں تقسیم ہند کے بعد سے اپنے روایتی حریف کو بار بار تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے اور جی 20 کے ارکان کو بھی آگاہ کرتا رہا ہے کہ اجلاس میں ان کی شرکت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جائز قرار دینے اور خطے پر غیر قانونی بھارتی قبضے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جائے گا۔
